Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Adil Mansuri's Photo'

عادل منصوری

1936 - 2008 | احمد آباد, انڈیا

ممتاز جدید شاعر، زبان کے روایت شکن استعمال کے لئے مشہور، اپنی خطاطی اور ڈرامہ نگاری کے لئے بھی معروف

ممتاز جدید شاعر، زبان کے روایت شکن استعمال کے لئے مشہور، اپنی خطاطی اور ڈرامہ نگاری کے لئے بھی معروف

عادل منصوری کے اشعار

30.5K
Favorite

باعتبار

کب سے ٹہل رہے ہیں گریبان کھول کر

خالی گھٹا کو کیا کریں برسات بھی تو ہو

تصویر میں جو قید تھا وہ شخص رات کو

خود ہی فریم توڑ کے پہلو میں آ گیا

دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا

جھونکا ہوا کا کھڑکی کے پردے ہلا گیا

دروازہ کھٹکھٹا کے ستارے چلے گئے

خوابوں کی شال اوڑھ کے میں اونگھتا رہا

وہ جان نو بہار جدھر سے گزر گیا

پیڑوں نے پھول پتوں سے رستہ چھپا لیا

حدود وقت سے باہر عجب حصار میں ہوں

میں ایک لمحہ ہوں صدیوں کے انتظار میں ہوں

مجھے پسند نہیں ایسے کاروبار میں ہوں

یہ جبر ہے کہ میں خود اپنے اختیار میں ہوں

وہ تم تک کیسے آتا

جسم سے بھاری سایہ تھا

نہ کوئی روک سکا خواب کے سفیروں کو

اداس کر گئے نیندوں کے راہگیروں کو

کبھی خاک والوں کی باتیں بھی سن

کبھی آسمانوں سے نیچے اتر

چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کچھ بولتے نہیں

بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے

جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر

وہ تصویر باتیں بنانے لگی

کوئی خودکشی کی طرف چل دیا

اداسی کی محنت ٹھکانے لگی

ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں

تری یاد آنکھیں دکھانے لگی

لہو میں اترتی رہی چاندنی

بدن رات کا کتنا ٹھنڈا لگا

ایسے ڈرے ہوئے ہیں زمانے کی چال سے

گھر میں بھی پاؤں رکھتے ہیں ہم تو سنبھال کر

خواہش سکھانے رکھی تھی کوٹھے پہ دوپہر

اب شام ہو چلی میاں دیکھو کدھر گئی

گرتے رہے نجوم اندھیرے کی زلف سے

شب بھر رہیں خموشیاں سایوں سے ہمکنار

اب ٹوٹنے ہی والا ہے تنہائی کا حصار

اک شخص چیختا ہے سمندر کے آر پار

کب تک پڑے رہوگے ہواؤں کے ہاتھ میں

کب تک چلے گا کھوکھلے شبدوں کا کاروبار

نیند بھی جاگتی رہی پورے ہوئے نہ خواب بھی

صبح ہوئی زمین پر رات ڈھلی مزار میں

حمام کے آئینے میں شب ڈوب رہی تھی

سگریٹ سے نئے دن کا دھواں پھیل رہا تھا

بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا

میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا

دریا کے کنارے پہ مری لاش پڑی تھی

اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا

کس طرح جمع کیجئے اب اپنے آپ کو

کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے

سوئے تو دل میں ایک جہاں جاگنے لگا

جاگے تو اپنی آنکھ میں جالے تھے خواب کے

پھولوں کی سیج پر ذرا آرام کیا کیا

اس گلبدن پہ نقش اٹھ آئے گلاب کے

اللہ جانے کس پہ اکڑتا تھا رات دن

کچھ بھی نہیں تھا پھر بھی بڑا بد زبان تھا

کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو

تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو

انگلی سے اس کے جسم پہ لکھا اسی کا نام

پھر بتی بند کر کے اسے ڈھونڈتا رہا

جیتا ہے صرف تیرے لیے کون مر کے دیکھ

اک روز میری جان یہ حرکت بھی کر کے دیکھ

دریا کی وسعتوں سے اسے ناپتے نہیں

تنہائی کتنی گہری ہے اک جام بھر کے دیکھ

میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر

اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا

ہم کو گالی کے لیے بھی لب ہلا سکتے نہیں

غیر کو بوسہ دیا تو منہ سے دکھلا کر دیا

ہر آنکھ میں تھی ٹوٹتے لمحوں کی تشنگی

ہر جسم پہ تھا وقت کا سایہ پڑا ہوا

جسم کی مٹی نہ لے جائے بہا کر ساتھ میں

دل کی گہرائی میں گرتا خواہشوں کا آبشار

جانے کس کو ڈھونڈنے داخل ہوا ہے جسم میں

ہڈیوں میں راستہ کرتا ہوا پیلا بخار

تم کو دعویٰ ہے سخن فہمی کا

جاؤ غالبؔ کے طرف دار بنو

خودبخود شاخ لچک جائے گی

پھل سے بھرپور تو ہو لینے دو

یادوں نے اسے توڑ دیا مار کے پتھر

آئینے کی خندق میں جو پرچھائیں پڑی تھی

آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی

کھڑکی سے جو دیکھا تو گلی اونگھ رہی تھی

وہ کون تھا جو دن کے اجالے میں کھو گیا

یہ چاند کس کو ڈھونڈنے نکلا ہے شام سے

نشہ سا ڈولتا ہے ترے انگ انگ پر

جیسے ابھی بھگو کے نکالا ہو جام سے

پھر کوئی وسعت آفاق پہ سایہ ڈالے

پھر کسی آنکھ کے نقطے میں اتارا جاؤں

تو کس کے کمرے میں تھی

میں تیرے کمرے میں تھا

کھڑکی نے آنکھیں کھولی

دروازے کا دل دھڑکا

پھر بالوں میں رات ہوئی

پھر ہاتھوں میں چاند کھلا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے