میر تقی میر پر اشعار
اس عنوان کے تحت ہم نے
ان شعروں کو جمع کیا ہے جو میر تقی میر جیسے عظیم شاعر کو موضوع بناتے ہیں ۔ میر کے بعد کے تقریبا تمام بڑے شعرا نے میر کی استادی اور ان کی تخلیقی مہارت کا اعتراف کیا ۔ آپ ان شعروں سے گزرتے ہوئے دیکھیں گے کہ کس طرح میر اپنے بعد کے شعرا کے ذہن پر چھائے رہے اور کن کن طریقوں سے اپنے ہم پیشہ لوگوں سے داد وصول کرتے رہے ۔
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
-
موضوع : ریختہ
شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ
استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
ہمارے پیر تقی میرؔ نے کہا تھا کبھی
میاں یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے
سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف
عشق بن جینے کے آداب نہیں آتے ہیں
میرؔ صاحب نے کہا ہے کہ میاں عشق کرو
کہہ دو میرؔ و غالبؔ سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے
شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں
میرؔ کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغؔ
اپنے دیواں سے ملا دیکھیے دیواں ان کا
حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے
غالبؔ کا معتقد ہے مقلد ہے میرؔ کا
داغؔ کے شعر جوانی میں بھلے لگتے ہیں
میرؔ کی کوئی غزل گاؤ کہ کچھ چین پڑے
ہمارا میرؔ جی سے متفق ہونا ہے نا ممکن
اٹھانا ہے جو پتھر عشق کا تو ہلکا بھاری کیا
تم پہ کیا خاک اثر ہوگا مرے شعروں کا
تم کو تو میر تقی میرؔ نہیں کھینچ سکا
جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے
گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک
اب خدا مغفرت کرے اس کی
میرؔ مرحوم تھا عجب کوئی
شاعری میں میرؔ و غالبؔ کے زمانہ اب کہاں
شہرتیں جب اتنی سستی ہوں ادب دیکھے گا کون
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخؔ و ذوقؔ بھی جب چل نہ سکے میرؔ کے ساتھ
گو کہ تو میرؔ سے ہوا بہتر
مصحفیؔ پھر بھی میرؔ میرؔ ہی ہے
سخت مشکل تھا امتحان غزل
میرؔ کی نقل کر کے پاس ہوئے
کل شام چھت پہ میر تقی میرؔ کی غزل
میں گنگنا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے
جب بھی ٹوٹا مرے خوابوں کا حسیں تاج محل
میں نے گھبرا کے کہی میرؔ کے لہجے میں غزل
آج غالب ہے مرے سر پر عشق
آج میں میرؔ ہوا چاہتا ہوں
تمہاری یاد بھی چپکے سے آ کے بیٹھ گئی
غزل جو میرؔ کی اک گنگنا رہا تھا میں
میرؔ جی عشق مانا کہ نعمت نہیں پر میں اس کو بلا بھی نہیں مانتا
مانتا ہوں خدائے سخن بھی تمہیں اور حکم خدا بھی نہیں مانتا
یوں بھی دلی میں لوگ رہتے ہیں
جیسے دیوان میر چاک شدہ
ہم اس کو ساری عمر اٹھائے پھرا کیے
جو بار میرؔ سے بھی اٹھایا نہ جا سکا
یا رب کسے ہے ناقہ ہر غنچہ اس چمن کا
راہ وفا کو ہم تو مسدود جانتے ہیں
ہم بھی کیا روگ یہ گمبھیر لیے بیٹھے ہیں
مصحفیؔ ذوقؔ جگرؔ میرؔ لیے بیٹھے ہیں
گریہ و زاری کا سامان اٹھا لیتے ہیں
ہجر میں میرؔ کا دیوان اٹھا لیتے ہیں
ہو میرؔ کا زمانہ کہ موجودہ وقت ہو
دلی سے لکھنؤ کی ہمیشہ ٹھنی رہی
خواب سارے تکیے پہ چین کی ہوں سوتے نیند
میرؔ جی کے جیسا ہی روگ ہم نے پالا ہو
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
اک بات کہیں گے انشاؔ جی تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم ایک جہاں کا علم پڑھے کوئی میرؔ سا شعر کہا تم نے
-
موضوع : ریختہ
ایسا ویسا کوئی نہ سمجھے مجھے
میرؔ غالبؔ کی شاعری ہوں میں
میرؔ جی ہنس کے بات کرتی ہے
پنکھڑی اک گلاب سی مجھ سے
میں نے دیکھا تو نہیں میرؔ کا دیوان مگر
جانتا ہوں تری آنکھوں کی طرح ہوتا ہے
پجاری ہیں ازل سے میرؔ جی کے
وہی ہم ہیں وہی قشقہ ہمارا
عشق ہوا جب ان کو پڑھتے دیکھا تھا
میرؔ کی غزلیں دریا گنج کے سرکل پر
دیار میر تقی میرؔ کو سلام کرو
یہاں خدائے سخن گاہ گاہ بیٹھتے ہیں