Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میر تقی میر پر اشعار

اس عنوان کے تحت ہم نے

ان شعروں کو جمع کیا ہے جو میر تقی میر جیسے عظیم شاعر کو موضوع بناتے ہیں ۔ میر کے بعد کے تقریبا تمام بڑے شعرا نے میر کی استادی اور ان کی تخلیقی مہارت کا اعتراف کیا ۔ آپ ان شعروں سے گزرتے ہوئے دیکھیں گے کہ کس طرح میر اپنے بعد کے شعرا کے ذہن پر چھائے رہے اور کن کن طریقوں سے اپنے ہم پیشہ لوگوں سے داد وصول کرتے رہے ۔

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

مرزا غالب

شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ

استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

راسخ عظیم آبادی

غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ

آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں

مرزا غالب

ہمارے پیر تقی میرؔ نے کہا تھا کبھی

میاں یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے

راحت اندوری

سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ

ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف

محمد رفیع سودا

عشق بن جینے کے آداب نہیں آتے ہیں

میرؔ صاحب نے کہا ہے کہ میاں عشق کرو

والی آسی

کہہ دو میرؔ و غالبؔ سے ہم بھی شعر کہتے ہیں

وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے

منظر بھوپالی

شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرتؔ

میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں

حسرتؔ موہانی

میرؔ کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغؔ

اپنے دیواں سے ملا دیکھیے دیواں ان کا

داغؔ دہلوی

حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے

غالبؔ کا معتقد ہے مقلد ہے میرؔ کا

الطاف حسین حالی

داغؔ کے شعر جوانی میں بھلے لگتے ہیں

میرؔ کی کوئی غزل گاؤ کہ کچھ چین پڑے

گنیش بہاری طرز

ہمارا میرؔ جی سے متفق ہونا ہے نا ممکن

اٹھانا ہے جو پتھر عشق کا تو ہلکا بھاری کیا

ندا فاضلی

تم پہ کیا خاک اثر ہوگا مرے شعروں کا

تم کو تو میر تقی میرؔ نہیں کھینچ سکا

عمیر نجمی

جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا

اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے

اتل اجنبی

گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں

بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک

حسرتؔ موہانی

اب خدا مغفرت کرے اس کی

میرؔ مرحوم تھا عجب کوئی

مصحفی غلام ہمدانی

شاعری میں میرؔ و غالبؔ کے زمانہ اب کہاں

شہرتیں جب اتنی سستی ہوں ادب دیکھے گا کون

معراج فیض آبادی

شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں

آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں

امام بخش ناسخ

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو

باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو

احمد فراز

میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ

ناسخؔ و ذوقؔ بھی جب چل نہ سکے میرؔ کے ساتھ

اکبر الہ آبادی

گو کہ تو میرؔ سے ہوا بہتر

مصحفیؔ پھر بھی میرؔ میرؔ ہی ہے

مصحفی غلام ہمدانی

سخت مشکل تھا امتحان غزل

میرؔ کی نقل کر کے پاس ہوئے

فہمی بدایونی

کل شام چھت پہ میر تقی میرؔ کی غزل

میں گنگنا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے

انجم رہبر

اقبالؔ کی نوا سے مشرف ہے گو نعیمؔ

اردو کے سر پہ میرؔ کی غزلوں کا تاج ہے

حسن نعیم

جب بھی ٹوٹا مرے خوابوں کا حسیں تاج محل

میں نے گھبرا کے کہی میرؔ کے لہجے میں غزل

طاہر فراز

سنو میں میرؔ کا دیوان سمجھتا ہوں اسے

جو نمازی ہیں وہ قرآن سمجھتے ہوں گے

امیر امام

اک میرؔ تھا سو آج بھی کاغذ میں قید ہے

ہندی غزل کا دوسرا اوتار میں ہی ہوں

بشیر بدر

آج غالب ہے مرے سر پر عشق

آج میں میرؔ ہوا چاہتا ہوں

شاداب جاوید

تمہاری یاد بھی چپکے سے آ کے بیٹھ گئی

غزل جو میرؔ کی اک گنگنا رہا تھا میں

محسن آفتاب کیلاپوری

میرؔ جی عشق مانا کہ نعمت نہیں پر میں اس کو بلا بھی نہیں مانتا

مانتا ہوں خدائے سخن بھی تمہیں اور حکم خدا بھی نہیں مانتا

چراغ شرما

سخن آباد میں سودائیوں کی دھوم سہی

میرؔ جی شعر کے فن میں مرے استاد رہو

آکاش عرش

یوں بھی دلی میں لوگ رہتے ہیں

جیسے دیوان میر چاک‌ شدہ

مظفر حنفی

ہم اس کو ساری عمر اٹھائے پھرا کیے

جو بار میرؔ سے بھی اٹھایا نہ جا سکا

طارق قمر

یا رب کسے ہے ناقہ ہر غنچہ اس چمن کا

راہ وفا کو ہم تو مسدود جانتے ہیں

میر تقی میر

ہم بھی کیا روگ یہ گمبھیر لیے بیٹھے ہیں

مصحفیؔ ذوقؔ جگرؔ میرؔ لیے بیٹھے ہیں

امت جھا راہی

میرے اللہ مجھے ایسے خیالوں سے نواز

وہ جنہیں میر تقی میرؔ نہیں سوچ سکا

لکی فاروقی حسرت

گریہ و زاری کا سامان اٹھا لیتے ہیں

ہجر میں میرؔ کا دیوان اٹھا لیتے ہیں

حمزہ بلال

ہو میرؔ کا زمانہ کہ موجودہ وقت ہو

دلی سے لکھنؤ کی ہمیشہ ٹھنی رہی

عثمان مینائی

خواب سارے تکیے پہ چین کی ہوں سوتے نیند

میرؔ جی کے جیسا ہی روگ ہم نے پالا ہو

سعید راہی

اک بات کہیں گے انشاؔ جی تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی

تم ایک جہاں کا علم پڑھے کوئی میرؔ سا شعر کہا تم نے

ابن انشا

سرسری میرؔ کا دیوان نہیں کھلتا ہے

مختصر کھلنے میں انسان نہیں کھلتا ہے

آشو مشرا

میرؔ غالبؔ یہیں تو رہتے تھے

ہم بھی دلی سے دل لگا لیں کیا

اسلم راشد

ایسا ویسا کوئی نہ سمجھے مجھے

میرؔ غالبؔ کی شاعری ہوں میں

جیوتی آزاد کھتری

یہاں پہ آہ و فغاں درد و غم کا نام نہیں

مرا کلام ہے یہ میرؔ کا کلام نہیں

آشو مشرا

میرؔ جی ہنس کے بات کرتی ہے

پنکھڑی اک گلاب سی مجھ سے

شاسوت سنگھ درپن

اجنبی تم کبھی نہ پاؤ گے

مرتبہ جو غزل میں میرؔ کا ہے

اتل اجنبی

میں نے دیکھا تو نہیں میرؔ کا دیوان مگر

جانتا ہوں تری آنکھوں کی طرح ہوتا ہے

ارمان جودھ پوری

پجاری ہیں ازل سے میرؔ جی کے

وہی ہم ہیں وہی قشقہ ہمارا

وکاس شرما راز

عشق ہوا جب ان کو پڑھتے دیکھا تھا

میرؔ کی غزلیں دریا گنج کے سرکل پر

گوتم راج رشی

دیار میر تقی میرؔ کو سلام کرو

یہاں خدائے سخن گاہ گاہ بیٹھتے ہیں

لکی فاروقی حسرت
بولیے