Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ameer Imam's Photo'

امیر امام

1984 | سنبھل, انڈیا

ہندوستانی غزل کی نئی نسل کی ایک روشن آواز

ہندوستانی غزل کی نئی نسل کی ایک روشن آواز

امیر امام کے اشعار

4K
Favorite

باعتبار

اپنی طرف تو میں بھی نہیں ہوں ابھی تلک

اور اس طرف تمام زمانہ اسی کا ہے

سنو میں میرؔ کا دیوان سمجھتا ہوں اسے

جو نمازی ہیں وہ قرآن سمجھتے ہوں گے

تو نے جس بات کو اظہار محبت سمجھا

بات کرنے کو بس اک بات رکھی تھی ہم نے

رکھی ہوئی ہے دونوں کی بنیاد ریت پر

صحرائے بے کراں کو سمندر لکھیں گے ہم

محسوس کر رہا ہوں خاروں میں قید خوشبو

آنکھوں کو تیری جانب اک بار کر لیا ہے

ابھی تو اور بھی چہرے تمہیں پکاریں گے

ابھی وہ اور بھی چہروں میں منتقل ہوگا

ابھی تو اور بھی چہرے تمہیں پکاریں گے

ابھی وہ اور بھی چہروں میں منتقل ہوگا

جو شام ہوتی ہے ہر روز ہار جاتا ہوں

میں اپنے جسم کی پرچھائیوں سے لڑتے ہوئے

اس بار راہ عشق کچھ اتنی طویل تھی

اس کے بدن سے ہو کے گزرنا پڑا مجھے

یہ کار زندگی تھا تو کرنا پڑا مجھے

خود کو سمیٹنے میں بکھرنا پڑا مجھے

شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے

تیرگی ہر سمت پھیلا کر ہوا خاموش ہے

دھوپ میں کون کسے یاد کیا کرتا ہے

پر ترے شہر میں برسات تو ہوتی ہوگی

جب ساتھ تھے تو مل کے بھی ملنا نہ ہو سکا

جب سے بچھڑ گئے ہو تو پیہم ملے ہمیں

پہلے صحرا سے مجھے لایا سمندر کی طرف

ناؤ پر کاغذ کی پھر مجھ کو سوار اس نے کیا

سوچ لو یہ دل لگی بھاری نہ پڑ جائے کہیں

جان جس کو کہہ رہے ہو جان ہوتی جائے گی

کر ہی کیا سکتی ہے دنیا اور تجھ کو دیکھ کر

دیکھتی جائے گی اور حیران ہوتی جائے گی

کر ہی کیا سکتی ہے دنیا اور تجھ کو دیکھ کر

دیکھتی جائے گی اور حیران ہوتی جائے گی

اک اشک قہقہوں سے گزرتا چلا گیا

اک چیخ خامشی میں اترتی چلی گئی

امیرؔ امام بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے

تمہارے شعر اسی بانکپن میں لوٹ آئے

نہ آبشار نہ صحرا لگا سکے قیمت

ہم اپنی پیاس کو لے کر دہن میں لوٹ آئے

وہ کام رہ کے کرنا پڑا شہر میں ہمیں

مجنوں کو جس کے واسطے ویرانہ چاہیے

ترے بدن کی خلاؤں میں آنکھ کھلتی ہے

ہوا کے جسم سے جب جب لپٹ کے سوتا ہوں

لگی وہ تجھ سی تو عالم میں منفرد ٹھہری

وگرنہ عام سی لگتی اگر جدا لگتی

وہ معرکہ کہ آج بھی سر ہو نہیں سکا

میں تھک کے مسکرا دیا جب رو نہیں سکا

خاموشی کے ناخن سے چھل جایا کرتے ہیں

کوئی پھر ان زخموں پر آوازیں ملتا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے