ملاقات پر شاعری
ملاقات کو شاعروں نے کثرت کے ساتھ موضوع بنایا ہے ۔ یہ ملاقات بنیادی طور پر محبوب سے ملاقات ہے ۔ شاعر اپنی زندگی میں جو بھی کچھ ہو لیکن شاعری میں ضرور عاشق بن جاتا ہے ۔ ان شعروں میں آپ ملاقات کے میسر نہ ہونے ، ملاقات کے انتظار میں رہنے اور ملاقات کے وقت محبوب کے دھوکا دے جانے جیسی صورتوں سے گزریں گے ۔
کیا کہوں اس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں
وہ تو ملنے کو ملاقات سمجھتا ہی نہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
-
موضوعات : عشقاور 3 مزید
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے
-
موضوعات : دوستاور 1 مزید
نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے
اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی
فرازؔ ترک تعلق تو خیر کیا ہوگا
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اس سے
غیروں سے تو فرصت تمہیں دن رات نہیں ہے
ہاں میرے لیے وقت ملاقات نہیں ہے
آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے
چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم
یہ ملاقات ملاقات نہیں ہوتی ہے
بات ہوتی ہے مگر بات نہیں ہوتی ہے
آج ناگاہ ہم کسی سے ملے
بعد مدت کے زندگی سے ملے
today I chanced on someone unexpectedly
it was after ages life was face to face with me
کافی نہیں خطوط کسی بات کے لئے
تشریف لائیے گا ملاقات کے لئے
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
آنکھ بھر آئی کسی سے جو ملاقات ہوئی
خشک موسم تھا مگر ٹوٹ کے برسات ہوئی
یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا
تو نے ہی تو چاہا تھا کہ ملتا رہوں تجھ سے
تیری یہی مرضی ہے تو اچھا نہیں ملتا
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
یوں سر راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر
اس نے دیکھا بھی نہیں ہم نے پکارا بھی نہیں
دن بھی ہے رات بھی ہے صبح بھی ہے شام بھی ہے
اتنے وقتوں میں کوئی وقت ملاقات بھی ہے
ملنا جو نہ ہو تم کو تو کہہ دو نہ ملیں گے
یہ کیا کبھی پرسوں ہے کبھی کل ہے کبھی آج
اب ملاقات ہوئی ہے تو ملاقات رہے
نہ ملاقات تھی جب تک کہ ملاقات نہ تھی
زندگی کے وہ کسی موڑ پہ گاہے گاہے
مل تو جاتے ہیں ملاقات کہاں ہوتی ہے
چھوڑنا ہے تو نہ الزام لگا کر چھوڑو
کہیں مل جاؤ تو پھر لطف ملاقات رہے
جم گئی دھول ملاقات کے آئینوں پر
مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی
مدت سے آرزو ہے خدا وہ گھڑی کرے
ہم تم پئیں جو مل کے کہیں ایک جا شراب
-
موضوعات : آرزواور 1 مزید
میں چپ کھڑا تھا تعلق میں اختصار جو تھا
اسی نے بات بنائی وہ ہوشیار جو تھا
ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا
ہر ملاقات کا انجام جدائی تھا اگر
پھر یہ ہنگامہ ملاقات سے پہلے کیا تھا
منحصر وقت مقرر پہ ملاقات ہوئی
آج یہ آپ کی جانب سے نئی بات ہوئی
یوں تو وہ ہر کسی سے ملتی ہے
ہم سے اپنی خوشی سے ملتی ہے
کس طرح تجھ سے ملاقات میسر ہووے
یہ دعا گو ترا نے زور نہ زر رکھتا ہے
تیرے ملاپ بن نہیں فائزؔ کے دل کو چین
جیوں روح ہو بسا ہے تو اس کے بدن میں آ
اس قدر بسکہ روز ملنے سے
خاطروں میں غبار آوے ہے