استقبالیہ کے لیے اشعار
شاعری ایسی کیفیتوں کو زبان دیتی جن سے ہم روز گزرتے تو ہیں لیکن ان کا اظہار بھی نہیں کرسکتے اورنہ ہی ان پر ٹھہر کر سوچ سکتے ہیں ۔ استقبال پر ہم نے ایسے ہی شعروں کو اکھٹا کیا ہے جو استقبال کرنے اور استقبال کئے جانے والے شخص کی نازک ترین کیفیتوں کا اظہاریہ ہیں ۔ یہ انتخاب استقبال کی اور بھی بہت سی جہتوں پر مشتمل ہے۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
-
موضوعات : التجااور 3 مزید
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 1 مزید
تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے
how often does the moon condescend to come to earth
let us talk of love and joy now that you are here
چاند بھی حیران دریا بھی پریشانی میں ہے
عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی
-
موضوعات : انتظاراور 3 مزید
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
Am grateful you came finally, though you were delayed
hope had not forsaken me, though must say was afraid
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 1 مزید
مل کر تپاک سے نہ ہمیں کیجیے اداس
خاطر نہ کیجیے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے
جس بزم میں ساغر ہو نہ صہبا ہو نہ خم ہو
رندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو
ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
بجائے سینے کے آنکھوں میں دل دھڑکتا ہے
یہ انتظار کے لمحے عجیب ہوتے ہیں
یہ کس زہرہ جبیں کی انجمن میں آمد آمد ہے
بچھایا ہے قمر نے چاندنی کا فرش محفل میں
-
موضوع : چاند
فریب جلوہ کہاں تک بروئے کار رہے
نقاب اٹھاؤ کہ کچھ دن ذرا بہار رہے
تم آ گئے ہو خدا کا ثبوت ہے یہ بھی
قسم خدا کی ابھی میں نے تم کو سوچا تھا
تم آ گئے ہو تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے
ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے
فضائے دل پہ کہیں چھا نہ جائے یاس کا رنگ
کہاں ہو تم کہ بدلنے لگا ہے گھاس کا رنگ
تم جو آئے ہو تو شکل در و دیوار ہے اور
کتنی رنگین مری شام ہوئی جاتی ہے
یہ زلف بردوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے