Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Qateel Shifai's Photo'

قتیل شفائی

1919 - 2001 | لاہور, پاکستان

مقبول ترین شاعروں میں شامل۔ ممتاز فلم نغمہ نگار۔ اپنی غزل ’گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں‘ کے لئے مشہور

مقبول ترین شاعروں میں شامل۔ ممتاز فلم نغمہ نگار۔ اپنی غزل ’گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں‘ کے لئے مشہور

قتیل شفائی کے اشعار

61.1K
Favorite

باعتبار

گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں

کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے

نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ بت خانہ

تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے

زندگی میں بھی چلوں گا ترے پیچھے پیچھے

تو مرے دوست کا نقش کف پا ہو جانا

ترک وفا کے بعد یہ اس کی ادا قتیلؔ

مجھ کو ستائے کوئی تو اس کو برا لگے

اچھا یقیں نہیں ہے تو کشتی ڈبا کے دیکھ

اک تو ہی ناخدا نہیں ظالم خدا بھی ہے

اپنی زباں تو بند ہے تم خود ہی سوچ لو

پڑتا نہیں ہے یوں ہی ستم گر کسی کا نام

قتیل اپنا مقدر غم سے بیگانہ اگر ہوتا

تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے

یوں برستی ہیں تصور میں پرانی یادیں

جیسے برسات کی رم جھم میں سماں ہوتا ہے

یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا

جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا

کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں

میرا نہیں تو دل کا کہا مان جائیے

وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ

پھر کیا ہوا اگر وہ بھی ہرجائی بن گیا

جیت لے جائے کوئی مجھ کو نصیبوں والا

زندگی نے مجھے داؤں پہ لگا رکھا ہے

ابھی تو بات کرو ہم سے دوستوں کی طرح

پھر اختلاف کے پہلو نکالتے رہنا

یوں تسلی دے رہے ہیں ہم دل بیمار کو

جس طرح تھامے کوئی گرتی ہوئی دیوار کو

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی

ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

نہ جانے کون سی منزل پہ آ پہنچا ہے پیار اپنا

نہ ہم کو اعتبار اپنا نہ ان کو اعتبار اپنا

بہ پاس دل جسے اپنے لبوں سے بھی چھپایا تھا

مرا وہ راز تیرے ہجر نے پہنچا دیا سب تک

رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں

ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لیا پاؤں میں

کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیلؔ

مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا

تھوڑی سی اور زخم کو گہرائی مل گئی

تھوڑا سا اور درد کا احساس گھٹ گیا

آخری ہچکی ترے زانوں پہ آئے

موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں

تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو

اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں

نہ چھاؤں کرنے کو ہے وہ آنچل نہ چین لینے کو ہیں وہ بانہیں

مسافروں کے قریب آ کر ہر اک بسیرا پلٹ گیا ہے

اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن

دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں

حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں

ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں

یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں

خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے

وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے

میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے

رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر

یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے

تم آ سکو تو شب کو بڑھا دو کچھ اور بھی

اپنے کہے میں صبح کا تارا ہے ان دنوں

ستم تو یہ ہے کہ وہ بھی نہ بن سکا اپنا

قبول ہم نے کیے جس کے غم خوشی کی طرح

کس طرح اپنی محبت کی میں تکمیل کروں

غم ہستی بھی تو شامل ہے غم یار کے ساتھ

دشمنی مجھ سے کئے جا مگر اپنا بن کر

جان لے لے مری صیاد مگر پیار کے ساتھ

رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ

ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ

مفلس کے بدن کو بھی ہے چادر کی ضرورت

اب کھل کے مزاروں پہ یہ اعلان کیا جائے

میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا

گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا

سوکھ گئی جب آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیلؔ

تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا

لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا

جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے

کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم

دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے

میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں

برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے

تیز دھوپ میں آئی ایسی لہر سردی کی

موم کا ہر اک پتلا بچ گیا پگھلنے سے

دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں

لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں

انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی

تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات مری تنہائی کی

کیوں شریک غم بناتے ہو کسی کو اے قتیلؔ

اپنی سولی اپنے کاندھے پر اٹھاؤ چپ رہو

لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب

دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں

کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام

دنیا سمجھ رہی ہے کہ سچ مچ ترا ہوں میں

صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں

لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیا ہوں میں

ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے

ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج

بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے