تمام
تعارف
غزل82
نظم7
شعر169
ای-کتاب78
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 22
آڈیو 34
ویڈیو 70
قصہ5
گیلری 6
بلاگ5
دیگر
نعت1
جگر مراد آبادی کے اشعار
صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی
فکر جمیل خواب پریشاں ہے آج کل
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل
چشم پر نم زلف آشفتہ نگاہیں بے قرار
اس پشیمانی کے صدقہ میں پشیماں ہو گیا
ہر طرف چھا گئے پیغام محبت بن کر
مجھ سے اچھی رہی قسمت مرے افسانوں کی
آنکھوں سے جان جائیے فرقت کا ماجرا
اشکوں سے پوچھ لیجئے جو دل کا حال ہے
ہم کہیں آتے ہیں واعظ ترے بہکانے میں
اسی میخانے کی مٹی اسی میخانے میں
ہائے رے مجبوریاں محرومیاں ناکامیاں
عشق آخر عشق ہے تم کیا کرو ہم کیا کریں
موت کیا ایک لفظ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا
میں تو جب مانوں مری توبہ کے بعد
کر کے مجبور پلا دے ساقی
طول غم حیات سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو
غرق کر دے تجھ کو زاہد تیری دنیا کو خراب
کم سے کم اتنی تو ہر میکش کے پیمانے میں ہے
راحت بے خلش اگر مل بھی گئی تو کیا مزا
تلخئ غم بھی چاہئے بادۂ خوش گوار میں
دنیا یہ دکھی ہے پھر بھی مگر تھک کر ہی سہی سو جاتی ہے
تیرے ہی مقدر میں اے دل کیوں چین نہیں آرام نہیں
نگاہ یاس مری کام کر گئی اپنا
رلا کے اٹھے تھے وہ مسکرا کے بیٹھ گئے
وہ نظروں ہی نظروں میں سوالات کی دنیا
وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں جوابات کا عالم
ساز الفت چھڑ رہا ہے آنسوؤں کے ساز پر
مسکرائے ہم تو ان کو بد گمانی ہو گئی
مری روداد غم وہ سن رہے ہیں
تبسم سا لبوں پر آ رہا ہے
بن جاؤں نہ بیگانۂ آداب محبت
اتنا نہ قریب آؤ مناسب تو یہی ہے
حسن کے ہر جمال میں پنہاں
میری رعنائی خیال بھی ہے
آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے
جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے
لے کے خط ان کا کیا ضبط بہت کچھ لیکن
تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں نے بھرم کھول دیا
دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہے ہمیں
کتنی ظالم ہے تیری انگڑائی
مری ہستی ہے مری طرز تمنا اے دوست
خود میں فریاد ہوں میری کوئی فریاد نہیں
ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے
مسکراہٹ بھی آہ ہوتی ہے
آنکھوں میں نور جسم میں بن کر وہ جاں رہے
یعنی ہمیں میں رہ کے وہ ہم سے نہاں رہے
حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
جنون محبت یہاں تک تو پہنچا
کہ ترک محبت کیا چاہتا ہوں
پی رہا ہوں آنکھوں آنکھوں میں شراب
اب نہ شیشہ ہے نہ کوئی جام ہے
درد و غم دل کی طبیعت بن گئے
اب یہاں آرام ہی آرام ہے
لاکھ آفتاب پاس سے ہو کر گزر گئے
ہم بیٹھے انتظار سحر دیکھتے رہے
عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا
ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں
مے کشو مژدہ کہ باقی نہ رہی قید مکاں
آج اک موج بہا لے گئی میخانے کو
بگڑا ہوا ہے رنگ جہان خراب کا
بھر لوں نظر میں حسن کسی کے شباب کا
نگاہ شوق نے محشر میں صاف تاڑ لیا
کہاں وہ چھپتے کہ آنکھوں میں تھے سمائے ہوئے
جو نہ سمجھے ناصحو پھر اس کو سمجھاتے ہو کیوں
ساتھ دیوانے کے دیوانے بنے جاتے ہو کیوں
نشۂ حسن کو اس طرح اترتے دیکھا
عیب پر اپنے کوئی جیسے پشیماں ہو جائے
غرق کر دے تجھ کو زاہد تیری دنیا کو خراب
کم سے کم اتنی تو ہر مے کش کے پیمانے میں ہے
کیا بتاؤں کس قدر زنجیر پا ثابت ہوئے
چند تنکے جن کو اپنا آشیاں سمجھا تھا میں
بیٹھے ہوئے رقیب ہیں دل بر کے آس پاس
کانٹوں کا ہے ہجوم گل تر کے آس پاس
ابتدا وہ تھی کہ جینا تھا محبت میں محال
انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہو گیا
آئی جب ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
تجھے بھول جانا تو ممکن نہیں ہے
مگر بھول جانے کو جی چاہتا ہے
ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا
مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا
طوفاں کا گلا کیا کرتا ہے طوفاں کو دعائیں دے ناداں
ہر موج تجھے ٹھوکر دے کر ساحل کی طرف لے جاتی ہے
مجھی میں رہے مجھ سے مستور ہو کر
بہت پاس نکلے بہت دور ہو کر
مرے رشک بے نہایت کو نہ پوچھ میرے دل سے
تجھے تجھ سے بھی چھپاتا اگر اختیار ہوتا
وہ خلش جس سے تھا ہنگامۂ ہستی برپا
وقف بیتابئ خاموش ہوئی جاتی ہے