آرزو لکھنوی کے اشعار
پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
نگاہیں اس قدر قاتل کہ اف اف
ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ
وفا تم سے کریں گے دکھ سہیں گے ناز اٹھائیں گے
جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے
بری سرشت نہ بدلی جگہ بدلنے سے
چمن میں آ کے بھی کانٹا گلاب ہو نہ سکا
جو دل رکھتے ہیں سینے میں وہ کافر ہو نہیں سکتے
محبت دین ہوتی ہے وفا ایمان ہوتی ہے
محبت وہیں تک ہے سچی محبت
جہاں تک کوئی عہد و پیماں نہیں ہے
حد سے ٹکراتی ہے جو شے وہ پلٹتی ہے ضرور
خود بھی روئیں گے غریبوں کو رلانے والے
بھولے بن کر حال نہ پوچھ بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو
-
موضوع : بے_چینی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی
کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا
اللہ اللہ حسن کی یہ پردہ داری دیکھیے
بھید جس نے کھولنا چاہا وہ دیوانہ ہوا
بھولی باتوں پہ تیری دل کو یقیں
پہلے آتا تھا اب نہیں آتا
-
موضوع : بھروسہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر
پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے
جھوٹا ہی وعدہ کر لے سچی زبان والے
دل کی ضد اس لئے رکھ لی تھی کہ آ جائے قرار
کل یہ کچھ اور کہے گا مجھے معلوم نہ تھا
تیرے تو ڈھنگ ہیں یہی اپنا بنا کے چھوڑ دے
وہ بھی برا ہے باؤلا تجھ کو جو پا کے چھوڑ دے
وہ پلٹ کے جلد نہ آئیں گے یہ عیاں ہے طرز خرام سے
کوئی گردش ایسی بھی اے فلک جو بلا دے صبح کو شام سے
شوق چڑھتی دھوپ جاتا وقت گھٹتی چھاؤں ہے
با وفا جو آج ہیں کل بے وفا ہو جائیں گے
جس قدر نفرت بڑھائی اتنی ہی قربت بڑھی
اب جو محفل میں نہیں ہے وہ تمہارے دل میں ہے
محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے
بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے
دوست نے دل کو توڑ کے نقش وفا مٹا دیا
سمجھے تھے ہم جسے خلیل کعبہ اسی نے ڈھا دیا
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا
وہ میرا سمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا سب کہہ جانا
-
موضوع : ویلنٹائن ڈے
کھلنا کہیں چھپا بھی ہے چاہت کے پھول کا
لی گھر میں سانس اور گلی تک مہک گئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کس کام کی ایسی سچائی جو توڑ دے امیدیں دل کی
تھوڑی سی تسلی ہو تو گئی مانا کہ وہ بول کے جھوٹ گیا
جو کچھ تھا نہ کہنے کا سب کہہ گیا دیوانہ
سمجھو تو مکمل ہے اب عشق کا افسانہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے
دل آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر چلانا کیا جانے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
خزاں کا بھیس بنا کر بہار نے مارا
مجھے دورنگئ لیل و نہار نے مارا
آرزوؔ جام لو جھجک کیسی
پی لو اور دہشت گناہ گئی
سکون دل نہیں جس وقت سے اس بزم میں آئے
ذرا سی چیز گھبراہٹ میں کیا جانے کہاں رکھ دی
راہ بر رہزن نہ بن جائے کہیں اس سوچ میں
چپ کھڑا ہوں بھول کر رستے میں منزل کا پتا
-
موضوع : منزل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
یہ زورا زوری عشق کی تھی فطرت ہی جس نے بدل ڈالی
جلتا ہوا دل ہو کر پانی آنسو بن جانا کیا جانے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
وائے غربت کہ ہوئے جس کے لئے خانہ خراب
سن کے آواز بھی گھر سے نہ وہ باہر نکلا
جو کان لگا کر سنتے ہیں کیا جانیں رموز محبت کے
اب ہونٹ نہیں ہلنے پاتے اور پہروں باتیں ہوتی ہیں
ہم کو اتنا بھی رہائی کی خوشی میں نہیں ہوش
ٹوٹی زنجیر کہ خود پاؤں ہمارا ٹوٹا
برسوں بھٹکا کیا اور پھر بھی نہ ان تک پہنچا
گھر تو معلوم تھا رستہ مجھے معلوم نہ تھا
ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ
کس درجہ دکھے دل کا رنگین ہے افسانہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
نظر بچا کے جو آنسو کئے تھے میں نے پاک
خبر نہ تھی یہی دھبے بنیں گے دامن کے
مجھے رہنے کو وہ ملا ہے گھر کہ جو آفتوں کی ہے رہ گزر
تمہیں خاکساروں کی کیا خبر کبھی نیچے اترے ہو بام سے
مزا برسات کا چاہو تو ان آنکھوں میں آ بیٹھو
سیاہی ہے سفیدی ہے شفق ہے ابر باراں ہے