Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ibn e Insha's Photo'

ابن انشا

1927 - 1978 | کراچی, پاکستان

ممتاز پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ کل چودھویں کی رات تھی‘ کے لئے مشہور

ممتاز پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ کل چودھویں کی رات تھی‘ کے لئے مشہور

ابن انشا کے اشعار

29.9K
Favorite

باعتبار

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا

کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا

اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو

پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے

اک ہماری سحر نہیں ہوتی

کب لوٹا ہے بہتا پانی بچھڑا ساجن روٹھا دوست

ہم نے اس کو اپنا جانا جب تک ہاتھ میں داماں تھا

وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں

اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو

اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ

تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بیچاروں کا

انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا

وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو

اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے

تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا

حسن سب کو خدا نہیں دیتا

ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی

ہم کسی در پہ نہ ٹھٹکے نہ کہیں دستک دی

سیکڑوں در تھے مری جاں ترے در سے پہلے

گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں

اس بغیا کے بھید نہ کھولو سیر کرو خاموش رہو

کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر

جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا

اہل وفا سے ترک تعلق کر لو پر اک بات کہیں

کل تم ان کو یاد کرو گے کل تم انہیں پکارو گے

ایک سے ایک جنوں کا مارا اس بستی میں رہتا ہے

ایک ہمیں ہشیار تھے یارو ایک ہمیں بد نام ہوئے

اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے

دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے

اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں

ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا

بیکل بیکل رہتے ہو پر محفل کے آداب کے ساتھ

آنکھ چرا کر دیکھ بھی لیتے بھولے بھی بن جاتے ہو

کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو

اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو

وحشت دل کے خریدار بھی ناپید ہوئے

کون اب عشق کے بازار میں کھولے گا دکاں

ایک دن دیکھنے کو آ جاتے

یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

یوں ہی تو نہیں دشت میں پہنچے یوں ہی تو نہیں جوگ لیا

بستی بستی کانٹے دیکھے جنگل جنگل پھول میاں

آن کے اس بیمار کو دیکھے تجھ کو بھی توفیق ہوئی

لب پر اس کے نام تھا تیرا جب بھی درد شدید ہوا

میرؔ سے بیعت کی ہے تو انشاؔ میر کی بیعت بھی ہے ضرور

شام کو رو رو صبح کرو اب صبح کو رو رو شام کرو

دیدہ و دل نے درد کی اپنے بات بھی کی تو کس سے کی

وہ تو درد کا بانی ٹھہرا وہ کیا درد بٹائے گا

بے تیرے کیا وحشت ہم کو تجھ بن کیسا صبر و سکوں

تو ہی اپنا شہر ہے جانی تو ہی اپنا صحرا ہے

سن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ نکالی نہر

ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے کیوں ہو طول میاں

جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے

دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا

ہم گھوم چکے بستی بن میں

اک آس کی پھانس لیے من میں

حق اچھا پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا

تم بھی کوئی منصور ہو جو سولی پہ چڑھو خاموش رہو

جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے

کب کوئی لڑکی من کا دریچہ کھول کے باہر جھانکی ہے

جنم جنم کے ساتوں دکھ ہیں اس کے ماتھے پر تحریر

اپنا آپ مٹانا ہوگا یہ تحریر مٹانے میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے