Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رات پر اشعار

رات کا استعارہ شاعری

میں معنیاتی لحاظ سے بہت متنوع اور پھیلا ہوا ہے ۔ رات اپنی سیاہی اور تاریکی کے حوالے سے زندگی کی منفی صورتوں کی علامت کے طور پر بھی برتی گئی ہے ساتھ ہی روشنی کی چکا چوند اور اس کی اذیت کے مقابلے میں سکون اور تنہائی کے استعارے کے طور پر بھی ۔ رات کے اس متضاد اور دلچسپ شعری بیانیے کو پڑھئے ۔

اک رات وہ گیا تھا جہاں بات روک کے

اب تک رکا ہوا ہوں وہیں رات روک کے

فرحت احساس

مری نظر میں وہی موہنی سی مورت ہے

یہ رات ہجر کی ہے پھر بھی خوبصورت ہے

خلیل الرحمن اعظمی

رات کی بات کا مذکور ہی کیا

چھوڑیئے رات گئی بات گئی

چراغ حسن حسرت

بس اتنی سی بات تھی اس کی زلف ذرا لہرائی تھی

خوف زدہ ہر شام کا منظر سہمی سی ہر رات ملی

عقیل نعمانی

رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی

خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا

احمد فراز

پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات

یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات

شہریار

بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی

فراق گورکھپوری

دن کے سینے میں دھڑکتے ہوئے لمحوں کی قسم

شب کی رفتار سبک گام سے جی ڈرتا ہے

جاوید کمال رامپوری

عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے

دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے

مخدومؔ محی الدین

کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے

رات گئے تک کیوں جاگے ہو

محسن نقوی

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے

اک ہماری سحر نہیں ہوتی

ابن انشا

نیند ایسی کہ رات کم پڑ جائے

خواب ایسا کہ منہ کھلا رہ جائے

تہذیب حافی

ہم فقیروں کا پیرہن ہے دھوپ

اور یہ رات اپنی چادر ہے

عابد ودود

ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی

ترا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے

انور مرزاپوری

رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی

اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی

انور مسعود

ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے

میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے

اظہر عنایتی

ہم تو رات کا مطلب سمجھیں خواب، ستارے، چاند، چراغ

آگے کا احوال وہ جانے جس نے رات گزاری ہو

عرفان صدیقی

سنی اندھیروں کی سگبگاہٹ تو شام یادوں کی کہکشاں سے

چھپے ہوئے ماہتاب نکلے بجھے ہوئے آفتاب نکلے

عقیل نعمانی

میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا

تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

ناصر کاظمی

پوچھنا چاند کا پتا آذرؔ

جب اکیلے میں رات مل جائے

بلوان سنگھ آذر

کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی

آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی

ندا فاضلی

آج نہ جانے راز یہ کیا ہے

ہجر کی رات اور اتنی روشن

جگر مراد آبادی

یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ

ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

تشریح

یہ شعر اردو کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جو کیفیت پائی جاتی ہے اسے شدید تنہائی کے عالم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تلازمات میں شدت بھی ہے اور احساس بھی۔ ’’سرد رات‘‘، ’’آوارگی‘‘اور ’’نیند کا بوجھ‘‘ یہ ایسے تین عالم ہیں جن سے تنہائی کی تصویر بنتی ہے اور جب یہ کہا کہ ’’ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے‘‘ تو گویا تنہائی کے ساتھ ساتھ بےخانمائی کے المیہ کی تصویر بھی کھینچی ہے۔ شعر کا بنیادی مضمون تنہائی اور بےخانمائی اور اجنبیت ہے۔ شاعر کسی اور شہر میں ہیں اور سرد رات میں آنکھوں پر نیند کا بوجھ لے کے آوارہ گھوم رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ شہر میں اجنبی ہیں اس لئے کسی کے گھر نہیں جا سکتے ورنہ سرد رات، آوارگی اور نیند کا بوجھ وہ مجبوریاں ہیں جو کسی ٹھکانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ مگر شاعر کا المیہ یہ ہے کہ وہ تنہائی کے شہر میں کسی کو جانتے نہیں اسی لئے کہتے ہیں اگر میں اپنے شہر میں ہوتا تو اپنے گھر گیا ہوتا۔

شفق سوپوری

امید فاضلی

تھا وعدہ شام کا مگر آئے وہ رات کو

میں بھی کواڑ کھولنے فوراً نہیں گیا

انور شعور

تو ہی بتا دے کیسے کاٹوں

رات اور ایسی کالی رات

ذکی کاکوروی

کچھ دور تک تو چمکی تھی میرے لہو کی دھار

پھر رات اپنے ساتھ بہا لے گئی مجھے

زیب غوری

کسی ستارے سے کیا شکایت کہ رات سب کچھ بجھا ہوا تھا

فسردگی لکھ رہی تھی دل پر شکستگی کی نئی کہانی

عزم بہزاد

صبح تک کون جئے گا شب تنہائی میں

دل ناداں تجھے امید سحر ہے بھی تو کیا

مضطر خیرآبادی

آنکھوں کو سب کی نیند بھی دی خواب بھی دیے

ہم کو شمار کرتی رہی دشمنوں میں رات

شہریار

رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی

دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے

وسیم بریلوی

بڑی ہی کربناک تھی وہ پہلی رات ہجر کی

دوبارہ دل میں ایسا درد آج تک نہیں ہوا

عقیل نعمانی

اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے

دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے

تنویر سپرا

یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں

اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں

احمد مشتاق

رات آ جائے تو پھر تجھ کو پکاروں یارب

میری آواز اجالے میں بکھر جاتی ہے

جاوید ناصر

اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں

ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات

فراق گورکھپوری

ہچکیاں رات درد تنہائی

آ بھی جاؤ تسلیاں دے دو

ناصر جونپوری

چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے

مجھ سے اچھے تو شب غم کے مقدر نکلے

احمد مشتاق

رات کو رات کہہ دیا میں نے

سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا

حفیظ میرٹھی

باد شام آئے مہک اٹھے مرا صحن ریاض

بے مہک جھاڑیوں سے رات کی رانی نکلے

ریاض مجید

اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی

ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی

راہی معصوم رضا

رات کو جیت تو پاتا نہیں لیکن یہ چراغ

کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

عرفان صدیقی

آپ نے دن بنا دیا تھا جسے

زندگی بھر وہ رات یاد آئی

خمار بارہ بنکوی

موت برحق ہے ایک دن لیکن

نیند راتوں کو خوب آتی ہے

جمال اویسی

دن کٹا جس طرح کٹا لیکن

رات کٹتی نظر نہیں آتی

سید محمد اثر

ہر طرف تھی خاموشی اور ایسی خاموشی

رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے تھے

بھارت بھوشن پنت

شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو

خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا

شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔

شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔

تشریح

شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔

شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔

شفق سوپوری

داغؔ دہلوی

ہجر میں ملنے شب ماہ کے غم آئے ہیں

چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے

مخدومؔ محی الدین

اب انہیں تشریف لانا چاہیے

رات میں لکھتی ہے رانی رات کی

شاد عارفی

آنے والی آ نہیں چکتی جانے والی جا بھی چکی

ویسے تو ہر جانے والی رات تھی آنے والی رات

عطا الرحمن جمیل

تنہائی کے لمحات کا احساس ہوا ہے

جب تاروں بھری رات کا احساس ہوا ہے

نسیم شاہجہانپوری

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے