فانی بدایونی کے اشعار
میں نے فانیؔ ڈوبتی دیکھی ہے نبض کائنات
جب مزاج یار کچھ برہم نظر آیا مجھے
یا کہتے تھے کچھ کہتے جب اس نے کہا کہئے
تو چپ ہیں کہ کیا کہئے کھلتی ہے زباں کوئی
تنکوں سے کھیلتے ہی رہے آشیاں میں ہم
آیا بھی اور گیا بھی زمانہ بہار کا
جس دل ربا سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں
آخر اسی نے ہم کو آنکھیں دکھائیاں ہیں
ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب
اس طرح گردش دوراں کو رلایا میں نے
نا مہربانیوں کا گلا تم سے کیا کریں
ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں
موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانیؔ
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے
بیمار ترے جی سے گزر جائیں تو اچھا
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں یہ مر جائیں تو اچھا
جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ
مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
روح ارباب محبت کی لرز جاتی ہے
تو پشیمان نہ ہو اپنی جفا یاد نہ کر
کسی کو کیا مرے سود و زیاں سے
گرے کیوں برق بچ کر آشیاں سے
اپنی ہی نگاہوں کا یہ نظارہ کہاں تک
اس مرحلۂ سعیٔ تماشا سے گزر جا
کس کو غم ہے جو کرے مرثیہ خوانی میری
رو رہی ہے مرے مرقد پہ جوانی میری
رونے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں فانیؔ
یہ اس کی گلی ہے تیرا غم خانہ نہیں ہے
وہ نظر کامیاب ہو کے رہی
دل کی بستی خراب ہو کے رہی
یا رب نوائے دل سے یہ کان آشنا سے ہیں
آواز آ ہی ہے یہ کب کی سنی ہوئی
یا ترے محتاج ہیں اے خون دل
یا انہیں آنکھوں سے دریا بھر گئے
وہم و قیاس کے سوا حاصل ہوش کچھ نہیں
فہم کی ابتدا ہے وہم عقل کی حد قیاس ہے
نہیں ضرور کہ مر جائیں جاں نثار تیرے
یہی ہے موت کہ جینا حرام ہو جائے
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
ہجر میں مسکرائے جا دل میں اسے تلاش کر
ناز ستم اٹھائے جا راز ستم نہ فاش کر
یارب تری رحمت سے مایوس نہیں فانیؔ
لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے
مسکرائے وہ حال دل سن کر
اور گویا جواب تھا ہی نہیں
جور کو جور بھی اب کیا کہیے
خود وہ تڑپا کے تڑپ جاتے ہیں
دل سراپا درد تھا وہ ابتدائے عشق تھی
انتہا یہ ہے کہ فانیؔ درد اب دل ہو گیا
اس درد کا علاج اجل کے سوا بھی ہے
کیوں چارہ ساز تجھ کو امید شفا بھی ہے
میں سو گیا تو زمانے کی کھل گئیں آنکھیں
میں جاگتا تھا تو سویا ہوا زمانہ تھا
میری ہوس کو عیش دو عالم بھی تھا قبول
تیرا کرم کہ تو نے دیا دل دکھا ہوا
چمن سے رخصت فانیؔ قریب ہے شاید
کہ اب کے بوئے کفن دامن بہار میں ہے
کوئی چٹکی سی کلیجے میں لیے جاتا ہے
ہم تری یاد سے غافل نہیں ہونے پاتے
فانی دوائے درد جگر زہر تو نہیں
کیوں ہاتھ کانپتا ہے مرے چارہ ساز کا
اب نئے سر سے چھیڑ پردۂ ساز
میں ہی تھا ایک دکھ بھری آواز
اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ
کیا کروگے وہ اگر یاد آیا
-
موضوع : یاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کفن اے گرد لحد دیکھ نہ میلا ہو جائے
آج ہی ہم نے یہ کپڑے ہیں نہا کے بدلے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یوں نہ قاتل کو جب یقیں آیا
ہم نے دل کھول کر دکھائی چوٹ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
درد دل کی انہیں خبر کیا ہو
جانتا کون ہے پرائی چوٹ
مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
روز ہے درد محبت کا نرالا انداز
روز دل میں تری تصویر بدل جاتی ہے
-
موضوع : تصویر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
آ گئی ہے ترے بیمار کے منہ پر رونق
جان کیا جسم سے نکلی کوئی ارماں نکلا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وحدت حسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
دل کے ہر ذرے میں عالم ہے پری خانے کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پھر کسی کی یاد نے تڑپا دیا
پھر کلیجہ تھام کر ہم رہ گئے
-
موضوع : یاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
-
موضوع : دل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ