Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fani Badayuni's Photo'

فانی بدایونی

1879 - 1941 | بدایوں, انڈیا

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، اپنی شاعری کے اداس رنگ کے لیے معروف

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، اپنی شاعری کے اداس رنگ کے لیے معروف

فانی بدایونی کے اشعار

29.5K
Favorite

باعتبار

میں نے فانیؔ ڈوبتی دیکھی ہے نبض کائنات

جب مزاج یار کچھ برہم نظر آیا مجھے

یا کہتے تھے کچھ کہتے جب اس نے کہا کہئے

تو چپ ہیں کہ کیا کہئے کھلتی ہے زباں کوئی

تنکوں سے کھیلتے ہی رہے آشیاں میں ہم

آیا بھی اور گیا بھی زمانہ بہار کا

جس دل ربا سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں

آخر اسی نے ہم کو آنکھیں دکھائیاں ہیں

ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب

اس طرح گردش دوراں کو رلایا میں نے

نا مہربانیوں کا گلا تم سے کیا کریں

ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں

موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانیؔ

گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے

بیمار ترے جی سے گزر جائیں تو اچھا

جیتے ہیں نہ مرتے ہیں یہ مر جائیں تو اچھا

جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ

مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے

روح ارباب محبت کی لرز جاتی ہے

تو پشیمان نہ ہو اپنی جفا یاد نہ کر

کسی کو کیا مرے سود و زیاں سے

گرے کیوں برق بچ کر آشیاں سے

صور و منصور و طور ارے توبہ

ایک ہے تیری بات کا انداز

اپنی ہی نگاہوں کا یہ نظارہ کہاں تک

اس مرحلۂ سعیٔ تماشا سے گزر جا

کس کو غم ہے جو کرے مرثیہ خوانی میری

رو رہی ہے مرے مرقد پہ جوانی میری

رونے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں فانیؔ

یہ اس کی گلی ہے تیرا غم خانہ نہیں ہے

وہ نظر کامیاب ہو کے رہی

دل کی بستی خراب ہو کے رہی

یا رب نوائے دل سے یہ کان آشنا سے ہیں

آواز آ ہی ہے یہ کب کی سنی ہوئی

یا ترے محتاج ہیں اے خون دل

یا انہیں آنکھوں سے دریا بھر گئے

وہم و قیاس کے سوا حاصل ہوش کچھ نہیں

فہم کی ابتدا ہے وہم عقل کی حد قیاس ہے

نہیں ضرور کہ مر جائیں جاں نثار تیرے

یہی ہے موت کہ جینا حرام ہو جائے

سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے

کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا

بات پہنچی تری جوانی تک

ہجر میں مسکرائے جا دل میں اسے تلاش کر

ناز ستم اٹھائے جا راز ستم نہ فاش کر

یارب تری رحمت سے مایوس نہیں فانیؔ

لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے

مسکرائے وہ حال دل سن کر

اور گویا جواب تھا ہی نہیں

جور کو جور بھی اب کیا کہیے

خود وہ تڑپا کے تڑپ جاتے ہیں

دل سراپا درد تھا وہ ابتدائے عشق تھی

انتہا یہ ہے کہ فانیؔ درد اب دل ہو گیا

بہلا نہ دل نہ تیرگیٔ شام غم گئی

یہ جانتا تو آگ لگاتا نہ گھر کو میں

اس درد کا علاج اجل کے سوا بھی ہے

کیوں چارہ ساز تجھ کو امید شفا بھی ہے

میں سو گیا تو زمانے کی کھل گئیں آنکھیں

میں جاگتا تھا تو سویا ہوا زمانہ تھا

میری ہوس کو عیش دو عالم بھی تھا قبول

تیرا کرم کہ تو نے دیا دل دکھا ہوا

چمن سے رخصت فانیؔ قریب ہے شاید

کہ اب کے بوئے کفن دامن بہار میں ہے

کوئی چٹکی سی کلیجے میں لیے جاتا ہے

ہم تری یاد سے غافل نہیں ہونے پاتے

فانی دوائے درد جگر زہر تو نہیں

کیوں ہاتھ کانپتا ہے مرے چارہ ساز کا

اب نئے سر سے چھیڑ پردۂ ساز

میں ہی تھا ایک دکھ بھری آواز

اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ

کیا کروگے وہ اگر یاد آیا

کفن اے گرد لحد دیکھ نہ میلا ہو جائے

آج ہی ہم نے یہ کپڑے ہیں نہا کے بدلے

یوں نہ قاتل کو جب یقیں آیا

ہم نے دل کھول کر دکھائی چوٹ

آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ

بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ

درد دل کی انہیں خبر کیا ہو

جانتا کون ہے پرائی چوٹ

مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات

مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے

روز ہے درد محبت کا نرالا انداز

روز دل میں تری تصویر بدل جاتی ہے

زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں

ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں

آ گئی ہے ترے بیمار کے منہ پر رونق

جان کیا جسم سے نکلی کوئی ارماں نکلا

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں

آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا

وحدت حسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق

دل کے ہر ذرے میں عالم ہے پری خانے کا

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ

زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا

پھر کسی کی یاد نے تڑپا دیا

پھر کلیجہ تھام کر ہم رہ گئے

دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم

بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے