Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kaif Bhopali's Photo'

کیف بھوپالی

1917 - 1991 | بھوپال, انڈیا

ممتاز مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ فلم’پاکیزہ‘ کے گیتوں کے لئے مشہور

ممتاز مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ فلم’پاکیزہ‘ کے گیتوں کے لئے مشہور

کیف بھوپالی کے اشعار

35.2K
Favorite

باعتبار

چار جانب دیکھ کر سچ بولئے

آدمی پھرتے ہیں سرکاری بہت

میرے دل نے دیکھا ہے یوں بھی ان کو الجھن میں

بار بار کمرے میں بار بار آنگن میں

وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا

دشہرے سے دوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے

یہ داڑھیاں یہ تلک دھاریاں نہیں چلتیں

ہمارے عہد میں مکاریاں نہیں چلتیں

جناب کیفؔ یہ دلی ہے میرؔ و غالبؔ کی

یہاں کسی کی طرف داریاں نہیں چلتیں

مجھے مسکرا مسکرا کر نہ دیکھو

مرے ساتھ تم بھی ہو رسوائیوں میں

کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں

اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا

گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو

آندھیو تم نے درختوں کو گرایا ہوگا

کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا

میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا

اس گلستاں کی یہی ریت ہے اے شاخ گل

تو نے جس پھول کو پالا وہ پرایا ہوگا

تھوڑا سا عکس چاند کے پیکر میں ڈال دے

تو آ کے جان رات کے منظر میں ڈال دے

جس دن مری جبیں کسی دہلیز پر جھکے

اس دن خدا شگاف مرے سر میں ڈال دے

کیفؔ پیدا کر سمندر کی طرح

وسعتیں خاموشیاں گہرائیاں

ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں

تہمتیں بدنامیاں رسوائیاں

ان سے مل کر اور بھی کچھ بڑھ گئیں

الجھنیں فکریں قیاس آرائیاں

زندگی شاید اسی کا نام ہے

دوریاں مجبوریاں تنہائیاں

داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے

ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے

ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے

وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے

ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج

ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے

کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو اے کیفؔ

ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے

اک نیا زخم ملا ایک نئی عمر ملی

جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے

تم سے مل کر املی میٹھی لگتی ہے

تم سے بچھڑ کر شہد بھی کھارا لگتا ہے

چلتے ہیں بچ کے شیخ و برہمن کے سائے سے

اپنا یہی عمل ہے برے آدمی کے ساتھ

سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا

امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ

آپ نے جھوٹا وعدہ کر کے

آج ہماری عمر بڑھا دی

ایک کمی تھی تاج محل میں

میں نے تری تصویر لگا دی

کچھ محبت کو نہ تھا چین سے رکھنا منظور

اور کچھ ان کی عنایات نے جینے نہ دیا

مے کشو آگے بڑھو تشنہ لبو آگے بڑھو

اپنا حق مانگا نہیں جاتا ہے چھینا جائے ہے

در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی

پھر یہ بارش مری تنہائی چرانے آئی

میں نے جب پہلے پہل اپنا وطن چھوڑا تھا

دور تک مجھ کو اک آواز بلانے آئی

تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے

تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے

سچ تو یہ ہے پھول کا دل بھی چھلنی ہے

ہنستا چہرہ ایک بہانا لگتا ہے

آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے

بجھتے بجھتے ایک زمانا لگتا ہے

تجھے کون جانتا تھا مری دوستی سے پہلے

ترا حسن کچھ نہیں تھا مری شاعری سے پہلے

ادھر آ رقیب میرے میں تجھے گلے لگا لوں

مرا عشق بے مزا تھا تری دشمنی سے پہلے

اس نے یہ کہہ کر پھیر دیا خط

خون سے کیوں تحریر نہیں ہے

چاہتا ہوں پھونک دوں اس شہر کو

شہر میں ان کا بھی گھر ہے کیا کروں

مت دیکھ کہ پھرتا ہوں ترے ہجر میں زندہ

یہ پوچھ کہ جینے میں مزہ ہے کہ نہیں ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے