aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

لالہ مادھو رام جوہر

1810 - 1889

کئی ضرب المثل شعروں کے خالق، مرزا غالب کے ہم عصر

کئی ضرب المثل شعروں کے خالق، مرزا غالب کے ہم عصر

لالہ مادھو رام جوہر کے اشعار

35K
Favorite

باعتبار

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

غیروں سے تو فرصت تمہیں دن رات نہیں ہے

ہاں میرے لیے وقت ملاقات نہیں ہے

تجھ سا کوئی جہان میں نازک بدن کہاں

یہ پنکھڑی سے ہونٹ یہ گل سا بدن کہاں

لڑنے کو دل جو چاہے تو آنکھیں لڑائیے

ہو جنگ بھی اگر تو مزے دار جنگ ہو

نالۂ بلبل شیدا تو سنا ہنس ہنس کر

اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی

اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں

دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

سمجھا لیا فریب سے مجھ کو تو آپ نے

دل سے تو پوچھ لیجیے کیوں بے قرار ہے

جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا

دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو

وہی شاگرد پھر ہو جاتے ہیں استاد اے جوہرؔ

جو اپنے جان و دل سے خدمت استاد کرتے ہیں

خوب رو ہیں سیکڑوں لیکن نہیں تیرا جواب

دل ربائی میں ادا میں ناز میں انداز میں

ہم عشق میں ہیں فرد تو تم حسن میں یکتا

ہم سا بھی نہیں ایک جو تم سا نہیں کوئی

نہ وہ صورت دکھاتے ہیں نہ ملتے ہیں گلے آ کر

نہ آنکھیں شاد ہوتیں ہیں نہ دل مسرور ہوتا ہے

دوست دو چار نکلتے ہیں کہیں لاکھوں میں

جتنے ہوتے ہیں سوا اتنے ہی کم ہوتے ہیں

ذرہ سمجھ کے یوں نہ ملا مجھ کو خاک میں

اے آسمان میں بھی کبھی آفتاب تھا

دنیا بہت خراب ہے جائے گزر نہیں

بستر اٹھاؤ رہنے کے قابل یہ گھر نہیں

ارمان وصل کا مری نظروں سے تاڑ کے

پہلے ہی سے وہ بیٹھ گئے منہ بگاڑ کے

تصور زلف کا ہے اور میں ہوں

بلا کا سامنا ہے اور میں ہوں

دوست دل رکھنے کو کرتے ہیں بہانے کیا کیا

روز جھوٹی خبر وصل سنا جاتے ہیں

محبت کو چھپائے لاکھ کوئی چھپ نہیں سکتی

یہ وہ افسانہ ہے جو بے کہے مشہور ہوتا ہے

تھمے آنسو تو پھر تم شوق سے گھر کو چلے جانا

کہاں جاتے ہو اس طوفان میں پانی ذرا ٹھہرے

اے دل زار مزہ دیکھ لیا الفت کا

ہم نہ کہتے تھے کہ اس کام میں ذلت ہوگی

وعدہ نہیں پیام نہیں گفتگو نہیں

حیرت ہے اے خدا مجھے کیوں انتظار ہے

دو ہی دن میں یہ صنم ہوش ربا ہوتے ہیں

کل کے ترشے ہوئے بت آج خدا ہوتے ہیں

نور بدن سے پھیلی اندھیرے میں چاندنی

کپڑے جو اس نے شب کو اتارے پلنگ پر

منہ پر نقاب زرد ہر اک زلف پر گلال

ہولی کی شام ہی تو سحر ہے بسنت کی

دل پیار کی نظر کے لیے بے قرار ہے

اک تیر اس طرف بھی یہ تازہ شکار ہے

چپ رہو کیوں مزاج پوچھتے ہو

ہم جئیں یا مریں تمہیں کیا ہے

اہل جنت مجھے لیتے ہیں نہ دوزخ والے

کس جگہ جا کے تمہارا یہ گنہ گار رہے

حال دل سنتے نہیں یہ کہہ کے خوش کر دیتے ہیں

پھر کبھی فرصت میں سن لیں گے کہانی آپ کی

میری ہی جان کے دشمن ہیں نصیحت والے

مجھ کو سمجھاتے ہیں ان کو نہیں سمجھاتے ہیں

نہ مانگیے جو خدا سے تو مانگیے کس سے

جو دے رہا ہے اسی سے سوال ہوتا ہے

چھوڑنا ہے تو نہ الزام لگا کر چھوڑو

کہیں مل جاؤ تو پھر لطف ملاقات رہے

بال اپنے اس پری رو نے سنوارے رات بھر

سانپ لوٹے سیکڑوں دل پر ہمارے رات بھر

حال دل یار کو محفل میں سنائیں کیوں کر

مدعی کان ادھر اور ادھر رکھتے ہیں

آپ تو منہ پھیر کر کہتے ہیں آنے کے لیے

وصل کا وعدہ ذرا آنکھیں ملا کر کیجیے

آ گیا جوہرؔ عجب الٹا زمانہ کیا کہیں

دوست وہ کرتے ہیں باتیں جو عدو کرتے نہیں

آخر اک روز تو پیوند زمیں ہونا ہے

جامۂ زیست نیا اور پرانا کیسا

دیکھیے کیا دکھاتی ہے تقدیر

چپ کھڑا ہوں گناہ گاروں میں

کعبے میں بھی وہی ہے شوالے میں بھی وہی

دونوں مکان اس کے ہیں چاہے جدھر رہے

سنتا ہوں میں کہ آج وہ تشریف لائیں گے

اللہ سچ کرے کہیں جھوٹی خبر نہ ہو

واقف نہیں کہ پاؤں میں پڑتی ہیں بیڑیاں

دولہے کو یہ خوشی ہے کہ میری برات ہے

پوری ہوتی ہیں تصور میں امیدیں کیا کیا

دل میں سب کچھ ہے مگر پیش نظر کچھ بھی نہیں

اپنی زبان سے مجھے جو چاہے کہہ لیں آپ

بڑھ بڑھ کے بولنا نہیں اچھا رقیب کا

اس قمر کو کبھی تو دیکھیں گے

تیس دن ہوتے ہیں مہینے کے

اب عطر بھی ملو تو تکلف کی بو کہاں

وہ دن ہوا ہوئے جو پسینہ گلاب تھا

برسات کا مزا ترے گیسو دکھا گئے

عکس آسمان پر جو پڑا ابر چھا گئے

جو کچھ پڑتی ہے سر پر سب اٹھاتا ہے محبت میں

جہاں دل آ گیا پھر آدمی مجبور ہوتا ہے

کون ہوتے ہیں وہ محفل سے اٹھانے والے

یوں تو جاتے بھی مگر اب نہیں جانے والے

سینے سے لپٹو یا گلا کاٹو

ہم تمہارے ہیں دل تمہارا ہے

خواب میں نام ترا لے کے پکار اٹھتا ہوں

بے خودی میں بھی مجھے یاد تری یاد کی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے