موت پر شعر
موت سب سے بڑی سچائی
اور سب سے تلخ حقیقت ہے ۔ اس کے بارے میں انسانی ذہن ہمیشہ سے سوچتا رہا ہے ، سوال قائم کرتا رہا ہے اور ان سوالوں کے جواب تلاش کرتا رہا ہے لیکن یہ ایک ایسا معمہ ہے جو نہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی حل ہوتا ہے ۔ شاعروں اور تخلیق کاروں نے موت اور اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے غبار میں سب سے زیادہ ہاتھ پیر مارے ہیں لیکن حاصل ایک بےاننت اداسی اور مایوسی ہے ۔ عشق میں ناکامی اور ہجر کا دکھ جھیلتے رہنے کی وجہ سے عاشق موت کی تمنا بھی کرتا ہے ۔موت کو شاعری میں برتنے کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں دیکھئے ۔
موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
چکبست کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا:
ہو گئے مضمحل قویٰ غالبؔ
اب عناصر میں اعتدال کہاں
انسانی جسم کچھ عناصر کی ترتیب سے تشکیل پاتا ہے۔ حکماء کی نظر میں وہ عناصر آگ، ہوا، مٹی اور پانی ہے۔ ان عناصر میں جب انتشار پیدا ہوتا ہے تو انسانی جسم اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔یعنی غالب کی زبان میں جب عناصر میں اعتدال نہیں رہتا تو قویٰ یعنی مختلف قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ چکبست اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جب تک انسانی جسم میں عناصر ترتیب کے ساتھ رہتے ہیں آدمی زندہ رہتا ہے۔ اور جب یہ عناصر پریشان ہوجاتے ہیں یعنی ان میں توزن اور اعتدال نہیں رہتا تو موت واقع ہو جاتی ہے۔
-
موضوعات : زندگیاور 2 مزید
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
یہ غالبؔ کے مشہور اشعار میں شمار ہوتا ہے۔ اس شعر میں غالب نے خوب مناسبتیں بھرتی ہیں۔ جیسے دن کی مناسبت سے رات ، موت کی مناسبت سے نیند۔ اس شعر میں غالبؔ نے انسانی نفسیات کے ایک اہم پہلو سے پردہ اٹھاکر ایک نازک مضمون باندھا ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ جبکہ اللہ نے ہر ذی نفس کی موت کے کئے ایک دن مقرر کیا ہے اور میں بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہوں، پھرمجھے رات بھر نیند کیوں نہیں آتی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ نیند کو موت کا ہی ایک روپ مانا جاتا ہے۔ شعر میں یہ رعایت بھی خوب ہے ۔ مگر شعر میں جو تہہ داری ہے اس کی طرف قاری کا دھیان فوری طور پر نہیں جاتا۔ دراصل غالب ؔ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ موت کا ایک دن الللہ نے مقرر کر کے رکھا ہے اور میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ ایک نہ ایک دن موت آہی جائےگی پھر موت کے کھٹکے سے مجھے ساری رات نیند کیوں نہیں آتی۔ یعنی موت کا ڈر مجھے سونے کیوں نہیں دیتا۔
-
موضوع : نیند
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
-
موضوع : مشہور اشعار
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں
زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
جو لوگ موت کو ظالم قرار دیتے ہیں
خدا ملائے انہیں زندگی کے ماروں سے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 2 مزید
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
-
موضوعات : بہانہاور 2 مزید
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاے کیوں
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر
عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا
ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج
ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
موت ہی انسان کی دشمن نہیں
زندگی بھی جان لے کر جائے گی
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
-
موضوع : خراج
زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
مانگی تھی ایک بار دعا ہم نے موت کی
شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم
کون جینے کے لیے مرتا رہے
لو، سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے
-
موضوع : زندگی
شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم
ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے
-
موضوعات : امیداور 2 مزید
بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
بوڑھوں کو بھی جو موت نہ آئے تو کیا کریں
بے تعلق زندگی اچھی نہیں
زندگی کیا موت بھی اچھی نہیں
-
موضوع : زندگی
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا نہ رہا
-
موضوع : انتظار
وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں
انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے
زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں
-
موضوعات : حادثہاور 1 مزید
بڑی تلاش سے ملتی ہے زندگی اے دوست
قضا کی طرح پتا پوچھتی نہیں آتی
-
موضوع : زندگی
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 1 مزید
جانے کیوں اک خیال سا آیا
میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی
-
موضوع : تصور
نیند کو لوگ موت کہتے ہیں
خواب کا نام زندگی بھی ہے
-
موضوعات : خواباور 2 مزید
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی
-
موضوع : زندگی
موت کیا ایک لفظ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا
زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے
-
موضوعات : خراجاور 1 مزید
ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی
بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ
-
موضوع : زندگی
مجھ کو معلوم ہے انجام محبت کیا ہے
ایک دن موت کی امید پہ جینا ہوگا
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
-
موضوع : خودداری
زندگی سے تو خیر شکوہ تھا
مدتوں موت نے بھی ترسایا
-
موضوع : زندگی
انیسؔ دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
-
موضوع : مشہور اشعار
زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے
-
موضوع : زندگی
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
تری وفا میں ملی آرزوئے موت مجھے
جو موت مل گئی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی
درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی
-
موضوع : درد