Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shakeel Badayuni's Photo'

شکیل بدایونی

1916 - 1970 | ممبئی, انڈیا

معروف فلم گیت کار اور شاعر

معروف فلم گیت کار اور شاعر

شکیل بدایونی کے اشعار

90.7K
Favorite

باعتبار

ذرا نقاب حسیں رخ سے تم الٹ دینا

ہم اپنے دیدہ و دل کا غرور دیکھیں گے

اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل

ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

ترک مے ہی سمجھ اسے ناصح

اتنی پی ہے کہ پی نہیں جاتی

کس سے جا کر مانگیے درد محبت کی دوا

چارہ گر اب خود ہی بے چارے نظر آنے لگے

مشکل تھا کچھ تو عشق کی بازی کو جیتنا

کچھ جیتنے کے خوف سے ہارے چلے گئے

ہمیں جن کی دید کی آس تھی وہ ملے تو راہ میں یوں ملے

میں نظر اٹھا کے تڑپ گیا وہ نظر اٹھا کے گزر گئے

کل رات زندگی سے ملاقات ہو گئی

لب تھرتھرا رہے تھے مگر بات ہو گئی

لمحات یاد یار کو صرف دعا نہ کر

آتے ہیں زندگی میں یہ عالم کبھی کبھی

شاید مری نگاہ میں ہے عظمت وجود

قطرے سے کہہ رہا ہوں کہ دریا سے بچ کے چل

کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے

روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے

تم پھر اسی ادا سے انگڑائی لے کے ہنس دو

آ جائے گا پلٹ کر گزرا ہوا زمانہ

کیا اثر تھا جذبۂ خاموش میں

خود وہ کھچ کر آ گئے آغوش میں

ان کا ذکر ان کی تمنا ان کی یاد

وقت کتنا قیمتی ہے آج کل

بزدلی ہوگی چراغوں کو دکھانا آنکھیں

ابر چھٹ جائے تو سورج سے ملانا آنکھیں

اٹھا جو مینا بدست ساقی رہی نہ کچھ تاب ضبط باقی

تمام مے کش پکار اٹھے یہاں سے پہلے یہاں سے پہلے

جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی

دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی

ہم سے مے کش جو توبہ کر بیٹھیں

پھر یہ کار ثواب کون کرے

پی شوق سے واعظ ارے کیا بات ہے ڈر کی

دوزخ ترے قبضے میں ہے جنت ترے گھر کی

زہے نصیب کہ دنیا نے تیرے غم نے مجھے

مسرتوں کا طلب گار کر کے چھوڑ دیا

مجھے تو قید محبت عزیز تھی لیکن

کسی نے مجھ کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا

اللہ رے بے خودی کہ ہم ان کے ہی رو بہ رو

بے اختیار انہی کو پکارے چلے گئے

بھیج دی تصویر اپنی ان کو یہ لکھ کر شکیلؔ

آپ کی مرضی ہے چاہے جس نظر سے دیکھیے

یہ کس خطا پہ روٹھ گئی چشم التفات

یہ کب کا انتقام لیا مجھ غریب سے

دل کی طرف شکیلؔ توجہ ضرور ہو

یہ گھر اجڑ گیا تو بسایا نہ جائے گا

جینے والے قضا سے ڈرتے ہیں

زہر پی کر دوا سے ڈرتے ہیں

آپ جو کچھ کہیں ہمیں منظور

نیک بندے خدا سے ڈرتے ہیں

مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں

جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں

وہی کارواں، وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے

مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں

وہ ہم سے خفا ہیں ہم ان سے خفا ہیں

مگر بات کرنے کو جی چاہتا ہے

لمحے اداس اداس فضائیں گھٹی گھٹی

دنیا اگر یہی ہے تو دنیا سے بچ کے چل

ستم نوازئ پیہم ہے عشق کی فطرت

فضول حسن پہ تہمت لگائی جاتی ہے

بدلتی جا رہی ہے دل کی دنیا

نئے دستور ہوتے جا رہے ہیں

وہ ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں

بہت مغرور ہوتے جا رہے ہیں

بات جب ہے غم کے ماروں کو جلا دے اے شکیلؔ

تو یہ زندہ میتیں مٹی میں داب آیا تو کیا

پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش

منزل جاناں سے کوئی کامیاب آیا تو کیا

وہ اگر برا نہ مانیں تو جہان رنگ و بو میں

میں سکون دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہارا

میں بتاؤں فرق ناصح جو ہے مجھ میں اور تجھ میں

مری زندگی تلاطم تری زندگی کنارا

کوئی اے شکیلؔ پوچھے یہ جنوں نہیں تو کیا ہے

کہ اسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا

مجھے آ گیا یقیں سا کہ یہی ہے میری منزل

سر راہ جب کسی نے مجھے دفعتاً پکارا

مری تیز گامیوں سے نہیں برق کو بھی نسبت

کہیں کھو نہ جائے دنیا مرے ساتھ ساتھ چل کر

کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دفعتاً تغافل

مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر

غم عمر مختصر سے ابھی بے خبر ہیں کلیاں

نہ چمن میں پھینک دینا کسی پھول کو مسل کر

محبت ہی میں ملتے ہیں شکایت کے مزے پیہم

محبت جتنی بڑھتی ہے، شکایت ہوتی جاتی ہے

شب کی بہار صبح کی ندرت نہ پوچھئے

کتنا حسیں ہے خواب محبت نہ پوچھئے

شام غم کروٹ بدلتا ہی نہیں

وقت بھی خوددار ہے تیرے بغیر

تجھ سے برہم ہوں کبھی خود سے خفا

کچھ عجب رفتار ہے تیرے بغیر

لمحہ لمحہ بار ہے تیرے بغیر

زندگی دشوار ہے تیرے بغیر

رند خراب نوش کی بے ادبی تو دیکھیے

نیت مے کشی نہ کی ہاتھ میں جام لے لیا

کوئی دل کش نظارہ ہو کوئی دلچسپ منظر ہو

طبیعت خود بہل جاتی ہے بہلائی نہیں جاتی

چھپے ہیں لاکھ حق کے مرحلے گم نام ہونٹوں پر

اسی کی بات چل جاتی ہے جس کا نام چلتا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے