شکیل بدایونی کے اشعار
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
ان کا ذکر ان کی تمنا ان کی یاد
وقت کتنا قیمتی ہے آج کل
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں درد عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دفعتاً تغافل
مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے
یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
انہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو ان سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
محبت ہی میں ملتے ہیں شکایت کے مزے پیہم
محبت جتنی بڑھتی ہے، شکایت ہوتی جاتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
مجھے چھوڑ دے میرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تری نوازش مختصر میرا درد اور بڑھا نہ دے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
مجھے تو قید محبت عزیز تھی لیکن
کسی نے مجھ کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا
کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر
پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں
تم پھر اسی ادا سے انگڑائی لے کے ہنس دو
آ جائے گا پلٹ کر گزرا ہوا زمانہ
ترک مے ہی سمجھ اسے ناصح
اتنی پی ہے کہ پی نہیں جاتی
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
چاہئے خود پہ یقین کامل
حوصلہ کس کا بڑھاتا ہے کوئی
-
موضوع : ترغیبی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
وہی کارواں، وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں
بھیج دی تصویر اپنی ان کو یہ لکھ کر شکیلؔ
آپ کی مرضی ہے چاہے جس نظر سے دیکھیے
کوئی اے شکیلؔ پوچھے یہ جنوں نہیں تو کیا ہے
کہ اسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی
ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کافی ہے مرے دل کی تسلی کو یہی بات
آپ آ نہ سکے آپ کا پیغام تو آیا
لمحے اداس اداس فضائیں گھٹی گھٹی
دنیا اگر یہی ہے تو دنیا سے بچ کے چل
-
موضوع : دنیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
بزدلی ہوگی چراغوں کو دکھانا آنکھیں
ابر چھٹ جائے تو سورج سے ملانا آنکھیں
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کتنی دلکش ہیں تری تصویر کی رعنائیاں
لیکن اے پردہ نشیں تصویر پھر تصویر ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں
کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں
کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا
مجھے آ گیا یقیں سا کہ یہی ہے میری منزل
سر راہ جب کسی نے مجھے دفعتاً پکارا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
دل کی طرف شکیلؔ توجہ ضرور ہو
یہ گھر اجڑ گیا تو بسایا نہ جائے گا
-
موضوع : دل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
مشکل تھا کچھ تو عشق کی بازی کو جیتنا
کچھ جیتنے کے خوف سے ہارے چلے گئے
کس سے جا کر مانگیے درد محبت کی دوا
چارہ گر اب خود ہی بے چارے نظر آنے لگے
پی شوق سے واعظ ارے کیا بات ہے ڈر کی
دوزخ ترے قبضے میں ہے جنت ترے گھر کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
نہ پیمانے کھنکتے ہیں نہ دور جام چلتا ہے
نئی دنیا کے رندوں میں خدا کا نام چلتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے