Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sarvat Husain's Photo'

ثروت حسین

1949 - 1996 | کراچی, پاکستان

ثروت حسین کے اشعار

16K
Favorite

باعتبار

کیوں گرفتہ دل نظر آتی ہے اے شام فراق

ہم جو تیرے ناز اٹھانے کے لیے موجود ہیں

مٹی پہ نمودار ہیں پانی کے ذخیرے

ان میں کوئی عورت سے زیادہ نہیں گہرا

دشت چھوڑا تو کیا ملا ثروتؔ

گھر بدلنے کے بعد کیا ہوگا

سوچتا ہوں کہ اس سے بچ نکلوں

بچ نکلنے کے بعد کیا ہوگا

مرے سینے میں دل ہے یا کوئی شہزادۂ خود سر

کسی دن اس کو تاج و تخت سے محروم کر دیکھوں

سوچتا ہوں دیار بے پروا

کیوں مرا احترام کرنے لگا

ملنا اور بچھڑ جانا کسی رستے پر

اک یہی قصہ آدمیوں کے ساتھ رہا

وہ اک سورج صبح تلک مرے پہلو میں

اپنی سب ناراضگیوں کے ساتھ رہا

جسے انجام تم سمجھتی ہو

ابتدا ہے کسی کہانی کی

صبح کے شہر میں اک شور ہے شادابی کا

گل دیوار، ذرا بوسہ نما ہو جانا

ثروتؔ تم اپنے لوگوں سے یوں ملتے ہو

جیسے ان لوگوں سے ملنا پھر نہیں ہوگا

اپنے اپنے گھر جا کر سکھ کی نیند سو جائیں

تو نہیں خسارے میں میں نہیں خسارے میں

موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ

لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں

اک داستان اب بھی سناتے ہیں فرش و بام

وہ کون تھی جو رقص کے عالم میں مر گئی

سورما جس کے کناروں سے پلٹ آتے ہیں

میں نے کشتی کو اتارا ہے اسی پانی میں

ہر صبح نکلنا کسی دیوار طرب سے

ہر شام کسی منزل غم ناک پہ ہونا

لے آئے گا اک روز گل و برگ بھی ثروتؔ

باراں کا مسلسل خس و خاشاک پہ ہونا

قندیل مہ و مہر کا افلاک پہ ہونا

کچھ اس سے زیادہ ہے مرا خاک پہ ہونا

خوش لباسی ہے بڑی چیز مگر کیا کیجے

کام اس پل ہے ترے جسم کی عریانی سے

عمر کا کوہ گراں اور شب و روز مرے

یہ وہ پتھر ہے جو کٹتا نہیں آسانی سے

خوش لباسی ہے بڑی چیز مگر کیا کیجئے

کام اس پل ہے ترے جسم کی عریانی سے

یہ انتہائے مسرت کا شہر ہے ثروتؔ

یہاں تو ہر در و دیوار اک سمندر ہے

نئی نئی سی آگ ہے یا پھر کون ہے وہ

پیلے پھولوں گہرے سرخ لبادوں والی

آنکھیں ہیں اور دھول بھرا سناٹا ہے

گزر گئی ہے عجب سواری یادوں والی

میں سو رہا تھا اور مری خواب گاہ میں

اک اژدہا چراغ کی لو کو نگل گیا

آنکھوں میں دمک اٹھی ہے تصویر در و بام

یہ کون گیا میرے برابر سے نکل کر

پاؤں ساکت ہو گئے ثروتؔ کسی کو دیکھ کر

اک کشش مہتاب جیسی چہرۂ دل بر میں تھی

یہ جو روشنی ہے کلام میں کہ برس رہی ہے تمام میں

مجھے صبر نے یہ ثمر دیا مجھے ضبط نے یہ ہنر دیا

کبھی تیغ تیز سپرد کی کبھی تحفۂ گل تر دیا

کسی شاہ زادی کے عشق نے مرا دل ستاروں سے بھر دیا

سایۂ ابر سے پوچھو ثروتؔ

اپنے ہم راہ اگر لے جائے

تیری آشفتہ مزاجی اے دل

کیا خبر کون نگر لے جائے

اسے بھی یاد رکھنا بادبانی ساعتوں میں

وہ سیارہ کنار صبح فردا آ ملے گا

میں اپنی پیاس کے ہم راہ مشکیزہ اٹھائے

کہ ان سیراب لوگوں میں کوئی پیاسا ملے گا

سیاہی پھیرتی جاتی ہیں راتیں بحر و بر پہ

انہی تاریکیوں سے مجھ کو بھی حصہ ملے گا

بہت مصر تھے خدایان ثابت و سیار

سو میں نے آئنہ و آسماں پسند کیے

دو ہی چیزیں اس دھرتی میں دیکھنے والی ہیں

مٹی کی سندرتا دیکھو اور مجھے دیکھو

بجھی روح کی پیاس لیکن سخی

مرے ساتھ میرا بدن بھی تو ہے

بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا

میں ہار گیا جنگ مگر دل نہیں ہارا

اپنے لیے تجویز کی شمشیر برہنہ

اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا

شہزادی تجھے کون بتائے تیرے چراغ کدے تک

کتنی محرابیں پڑتی ہیں کتنے در آتے ہیں

میں کتاب خاک کھولوں تو کھلے

کیا نہیں موجود کیا موجود ہے

یہ کون اترا پئے گشت اپنی مسند سے

اور انتظام مکان و سرا بدلنے لگا

میں آگ دیکھتا تھا آگ سے جدا کر کے

بلا کا رنگ تھا رنگینیٔ قبا سے ادھر

حسن بہار مجھ کو مکمل نہیں لگا

میں نے تراش لی ہے خزاں اپنے ہاتھ سے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے