aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اداسی پر 20 مشہور شعر

تخلیق کارکی حساسیت اسے

بالآخراداسی سے بھردیتی ہے ۔ یہ اداسی کلاسیکی شاعری میں روایتی عشق کی ناکامی سے بھی آئی ہے اوزندگی کے معاملات پرذرامختلف ڈھنگ سے سوچ بچار کرنے سے بھی ۔ دراصل تخلیق کارنہ صرف کسی فن پارے کی تخلیق کرتا ہے بلکہ دنیا اوراس کی بے ڈھنگ صورتوں کو بھی ازسرنوترتیب دینا چاہتا ہے لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتا ۔ تخلیقی سطح پرناکامی کا یہ احساس ہی اسے ایک گہری اداسی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ عالمی ادب کے بیشتر بڑے فن پارے اداسی کے اسی لمحے کی پیداوار ہیں ۔ ہم اداسی کی ان مختلف شکلوں کو آپ تک پہنچا رہے ہیں ۔

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

فیض احمد فیض

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے

اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

عبید اللہ علیم

تیرا ملنا خوشی کی بات سہی

تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

ساحر لدھیانوی

میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا

سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے

کرشن بہاری نور

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

ساحر لدھیانوی

تم مجھے چھوڑ کے جاؤ گے تو مر جاؤں گا

یوں کرو جانے سے پہلے مجھے پاگل کر دو

بشیر بدر

اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے

بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے

شکیل بدایونی

ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں

دل ہمیشہ اداس رہتا ہے

بشیر بدر

اپنی حالت کا خود احساس نہیں ہے مجھ کو

میں نے اوروں سے سنا ہے کہ پریشان ہوں میں

آسی الدنی

کسی کے تم ہو کسی کا خدا ہے دنیا میں

مرے نصیب میں تم بھی نہیں خدا بھی نہیں

اختر سعید خان

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

پروین شاکر

تم کیا جانو اپنے آپ سے کتنا میں شرمندہ ہوں

چھوٹ گیا ہے ساتھ تمہارا اور ابھی تک زندہ ہوں

ساغرؔ اعظمی

مجھے تنہائی کی عادت ہے میری بات چھوڑیں

یہ لیجے آپ کا گھر آ گیا ہے ہات چھوڑیں

جاوید صبا

ہمارے گھر کا پتا پوچھنے سے کیا حاصل

اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی

وسیم بریلوی

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے

اک ہماری سحر نہیں ہوتی

ابن انشا

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

ناصر کاظمی

مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر

یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں

احمد فراز

اس نے پوچھا تھا کیا حال ہے

اور میں سوچتا رہ گیا

اجمل سراج

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے

ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

قیصر الجعفری

وہ بات سوچ کے میں جس کو مدتوں جیتا

بچھڑتے وقت بتانے کی کیا ضرورت تھی

شارق کیفی

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے