Akhtar Shirani's Photo'

اختر شیرانی

1905 - 1948 | لاہور, پاکستان

مقبول ترین اردو شاعروں میں شامل ، شدید رومانی شاعری کے لئے مشہور

مقبول ترین اردو شاعروں میں شامل ، شدید رومانی شاعری کے لئے مشہور

اختر شیرانی کے اشعار

14.3K
Favorite

باعتبار

کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں

پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں

غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ

یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے

ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے

دو زہر کے پیالوں میں قضا کھیل رہی ہے

انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا

اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا

تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا

آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا

کیا بتاؤں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا

کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں

اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں

اٹھتے نہیں ہیں اب تو دعا کے لیے بھی ہاتھ

کس درجہ ناامید ہیں پروردگار سے

دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی

اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے

چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچھے

بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

تھک گئے ہم کرتے کرتے انتظار

اک قیامت ان کا آنا ہو گیا

کچھ اس طرح سے یاد آتے رہے ہو

کہ اب بھول جانے کو جی چاہتا ہے

خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں

ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے

زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب

عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا

بھلا بیٹھے ہو ہم کو آج لیکن یہ سمجھ لینا

بہت پچھتاؤ گے جس وقت ہم کل یاد آئیں گے

مانا کہ سب کے سامنے ملنے سے ہے حجاب

لیکن وہ خواب میں بھی نہ آئیں تو کیا کریں

یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو

میری اور اپنی جوانی کو نہ برباد کرو

اب وہ باتیں نہ وہ راتیں نہ ملاقاتیں ہیں

محفلیں خواب کی صورت ہوئیں ویراں کیا کیا

اب تو ملیے بس لڑائی ہو چکی

اب تو چلئے پیار کی باتیں کریں

محبت کے اقرار سے شرم کب تک

کبھی سامنا ہو تو مجبور کر دوں

مدتیں ہو گئیں بچھڑے ہوئے تم سے لیکن

آج تک دل سے مرے یاد تمہاری نہ گئی

اب جی میں ہے کہ ان کو بھلا کر ہی دیکھ لیں

وہ بار بار یاد جو آئیں تو کیا کریں

مبارک مبارک نیا سال آیا

خوشی کا سماں ساری دنیا پہ چھایا

رات بھر ان کا تصور دل کو تڑپاتا رہا

ایک نقشہ سامنے آتا رہا جاتا رہا

پلٹ سی گئی ہے زمانے کی کایا

نیا سال آیا نیا سال آیا

مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر

آج تک تیرے خطوں سے تری خوشبو نہ گئی

کسی مغرور کے آگے ہمارا سر نہیں جھکتا

فقیری میں بھی اخترؔ غیرت شاہانہ رکھتے ہیں

عشق کو نغمۂ امید سنا دے آ کر

دل کی سوئی ہوئی قسمت کو جگا دے آ کر

وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی

ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا

اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے

وہ عمر کیا ہوئی وہ زمانے کدھر گئے

اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم

نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں

لانڈری کھولی تھی اس کے عشق میں

پر وہ کپڑے ہم سے دھلواتا نہیں

تمناؤں کو زندہ آرزوؤں کو جواں کر لوں

یہ شرمیلی نظر کہہ دے تو کچھ گستاخیاں کر لوں

ان وفاداری کے وعدوں کو الٰہی کیا ہوا

وہ وفائیں کرنے والے بے وفا کیوں ہو گئے

دل میں لیتا ہے چٹکیاں کوئی

ہائے اس درد کی دوا کیا ہے

مجھے ہے اعتبار وعدہ لیکن

تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے

غم عزیزوں کا حسینوں کی جدائی دیکھی

دیکھیں دکھلائے ابھی گردش دوراں کیا کیا

بجا کہ ہے پاس حشر ہم کو کریں گے پاس شباب پہلے

حساب ہوتا رہے گا یا رب ہمیں منگا دے شراب پہلے

مجھے دونوں جہاں میں ایک وہ مل جائیں گر اخترؔ

تو اپنی حسرتوں کو بے نیاز دو جہاں کر لوں

اک وہ کہ آرزؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر

اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمان آرزو!

اس طرح ریل کے ہم راہ رواں ہے بادل

ساتھ جیسے کوئی اڑتا ہوا مے خانہ چلے

غم عاقبت ہے نہ فکر زمانہ

پئے جا رہے ہیں جئے جا رہے ہیں

ہے قیامت ترے شباب کا رنگ

رنگ بدلے گا پھر زمانے کا

عمر بھر کی تلخ بیداری کا ساماں ہو گئیں

ہائے وہ راتیں کہ جو خواب پریشاں ہو گئیں

کیا ہے آنے کا وعدہ تو اس نے

مرے پروردگار آئے نہ آئے

کس کو فرصت تھی زمانے کے ستم سہنے کی

گر نہ اس شوخ کی آنکھوں کا اشارا ہوتا

اس کے عہد شباب میں جینا

جینے والو تمہیں ہوا کیا ہے

سوئے کلکتہ جو ہم بہ دل دیوانہ چلے

گنگناتے ہوئے اک شوخ کا افسانہ چلے

پارسائی کی جواں مرگی نہ پوچھ

توبہ کرنی تھی کہ بدلی چھا گئی

کوچۂ حسن چھٹا تو ہوئے رسوائے شراب

اپنی قسمت میں جو لکھی تھی وہ خواری نہ گئی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے